کُلّیاتِ غالبؔ

جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل، کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی

عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بہ سر
کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی

افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی

رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی

؂۱ تمثالِ جلوہ عرض کر، اے حسن، کب تلک
آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی

چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی

لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانیٔ صحرا کرے کوئی

ناکامیٔ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی

سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی

ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی ؂۲

بے کاریٔ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی

  1. ؂۱نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ —جویریہ مسعود
  2. ؂۲نوٹ: یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے…
    نسخۂ مہرؔ: ؏ یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی
    نسخۂ طاہرؔ: ؏ یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی
    نسخۂ آسیؔ: ؏ یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
    نسخۂ حمیدیہؔ: ؏ یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
    مزید: نسخۂ رضا میں یہ شعر اُس غزل کا حصہ ہے جس کا مطلع ہے، ؎

    وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟
    ہستی کو لفظِ معنیٔ عنقا کرے کوئی

    —جویریہ مسعود