عرضِ نازِ شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے
دعویٔ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے
۱ خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے
دو جہاں وسعت بہ قدرِ یک فضائے خندہ ہے
ہے ۲ عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یک جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے
سوزشِ ۳ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے
۴ ہر شکستِ قیمتِ دل میں صدائے خندہ ہے ۵
نقشِ عبرت در نظر ہا نقدِ عشرت در بساط
۶ جائے استہزاء ہے عشرت کوشیٔ ہستی اسدؔ
صبح و شبنم فرصتِ نشو و نمائے خندہ ہے
- ۱نسخۂ رضا سے۔
- ۲نسخۂ رضا میں ”ہیں“ بجائے ”ہے“۔
- ۳نسخۂ عرشیؔ اور بعض دیگر مؤقر نسخوں میں یہاں ”سوزش“ کی جگہ ”شورش“ چھپا ہے۔ شاعر نے یقیناً ”سوزشِ باطن“ ہی کہا ہو گا کیونکہ احباب اُس کے لب ہائے خنداں کو دیکھ کر اُس کے غمِ پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لبوں کا تقابل ”سوزشِ باطن“ سے ہو سکتا ہے۔ شورشِ باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ”سوزشِ باطن“ ہی درج ہے۔
- ۴نسخۂ رضا سے۔
- ۵نسخۂ حمیدیہ: ؏ تا شکستِ قیمتِ دل ہا صدائے خندہ ہے
- ۶نسخۂ رضا سے۔