کُلّیاتِ غالبؔ

ضمیمۂ چہارم: ”قادر نامہ“ ؂۱

قادر اور اللّٰہ اور یزداں، خدا
ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رہنما

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام
وہ رسول اللّٰہ کا قائم مقام

ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے
جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے

بندگی کا ہاں عبادت نام ہے
نیک بختی کا سعادت نام ہے

کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم
لیل یعنی رات، دن اور روز، یوم

ہے صلوٰۃ اے مہرباں اسمِ نماز
جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز

جا نماز اور پھر مصلّا ہے وہی
اور سجّادہ بھی گویا ہے وہی

اسم وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام
کعبہ، مکّہ وہ جو ہے بیت الحرام

گرد پھرنے کو کہیں گے ہم طواف
بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف

پھر فلک، چرخ اور گردوں اور سپہر
آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر

مہر سورج، چاند کو کہتے ہیں ماہ
ہے محبت مہر، لازم ہے نباہ

غرب پچھّم اور پورب شرق ہے
ابر بدلی اور بجلی برق ہے

آگ کا آتش اور آذر نام ہے
اور انگارے کا اخگر نام ہے

تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے
فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے

نیولا راسُو ہے اور طاؤس مور
کبک کو ہندی میں کہتے ہیں چکور

خُم ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے سبو
آب پانی، بحر دریا، نہر جُو

چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں
دُود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں

دودھ جو پینے کا ہے وہ شیر ہے
طفل لڑکا اور بوڑھا پیر ہے

سینہ چھاتی، دست ہاتھ اور پائے پاؤں
شاخ ٹہنی، برگ پتا، سایہ چھاؤں

ماہ چاند، اختر ہیں تارے، رات شب
دانت دنداں، ہونٹ کو کہتے ہیں لب

استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال
سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال

تِل کو کنجد اور رُخ کو گال کہہ
گال پر جو تل ہو اس کو خال کہہ

کیکڑا سرطان ہے، کچھوا سنگ پشت
ساق پنڈلی، فارسی مٹھی کی مشت

ہے شکم پیٹ اور بغل آغوش ہے
کہنی آرنج اور کندھا دوش ہے

ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے
فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے

ہے وہی کژدُم جسے عقرب کہیں
نیش ہے وہ ڈنک جس کو سب کہیں

ہے لڑائی، حرب اور جنگ ایک چیز
کعب، ٹخنہ اور شتالنگ ایک چیز

ناک بینی، پرّہ نتھنا، گوش کان
کان کی لو نرمہ ہے، اے مہربان

چشم ہے آنکھ اور مژگاں ہے پَلک
آنکھ کی پتلی کو کہیے مردمک

منہ پر گر جھُری پڑے آژنگ جان
فارسی چھینکے کی تو آونگ جان

مسا، آژخ اور چھالہ، آبلہ
اور ہے دائی، جنائی، قابلہ

اونٹ اُشتر اور اُشغر سیّہ ہے
گوشت ہے لحم اور چربی پیّہ ہے

ہے زنخ ٹھوڑی، گلا ہے خنجرہ
سانپ ہے مار اور جھینگر زنجرہ

ہے زنخ ٹھوڑی، ذقن بھی ہے وہی
خاد ہے چیل اور زغن بھی ہے وہی

پھر غلیواز اس کو کہیے جو ہے چیل
چیونٹی ہے مور اور ہاتھی ہے پیل

لومڑی روباہ اور آہو ہرن
شمس سورج اور شعاع اس کی کرن

اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے
تازیانہ کیوں نہ کوڑا نام پائے

گربہ بلّی، موش چوہا، دام جال
رشتہ تاگا، جامہ کپڑا، قحط کال

خر گدھا اور اس کو کہتے ہیں اُلاغ
دیگداں چولہا جسے کہیے اُجاغ

ہندی چڑیا، فارسی کنجشک ہے
مینگنی جس کو کہیں وہ پشک ہے

تابہ ہے بھائی توے کی فارسی
اور تیہو ہے لوے کی فارسی

نام مکڑی کا کلاش اور عنکبوت
کہتے ہیں مچھلی کو ماہی اور حوت

پشّہ مچھّر اور مکھّی ہے مگس
آشیانہ گھونسلا، پنجرہ قفس

بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند
میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند

نام گُل کا پھول، شبنم اوس ہے
جس کو نقّارہ کہیں وہ کوس ہے

خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ
سیم چاندی، مس ہے تانبا، بخت بھاگ

سقف چھت ہے، سنگ پتھّر، اینٹ خشت
جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں زشت

زر ہے سونا اور زرگر ہے سنار
موز کیلا اور ککڑی ہے خیار

ریش داڑھی، مونچھ سلبت اور بُروت
احمق اور نادان کو کہتے ہیں اُوت

زندگانی ہے حیات اور مرگ موت
شوے خاوند اور ہے انباغ سَوت

جملہ سب اور نصف آدھا، ربع پاؤ
صرصر آندھی، سیل نالا، باد باؤ

ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریش
بھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤ میش

ہفت سات اور ہشت آٹھ اور بست بیس
سی اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس

ہے چہل چالیس اور پنجہ پچاس
نااُمّیدی یاس اور اُمّید آس

دوش کل کی رات اور امروز آج
آرد آٹا اور غلّہ ہے اناج

چاہیے ہے ماں کو مادر جاننا
اور بھائی کو برادر جاننا

پھاؤڑا بیل اور درانتی واس ہے
فارسی کاہ اور ہندی گھاس ہے

سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ
خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں کاہ

چکسہ پڑیا، کیسہ کا تھیلی ہے نام
فارسی میں دھپّے کا سیلی ہے نام

اخلگندو جھجھنا، نیرو ہے زور
بادفر، پھِرکی اور ہے دُزد چور

انگبیں شہد اور عسل، یہ اے عزیز
نام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز

آجُل اور آروغ کی ہندی ڈکار
مے شراب اور پینے والا میگسار

روئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو
آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو

خانہ گھر ہے اور کوٹھا بام ہے
قلعہ دژ، کھائی کا خندق نام ہے

گر دریچہ فارسی کھڑکی کی ہے
سرزنش بھی فارسی جھڑکی کی ہے

ہے بنولا، پنبہ دانہ لا کلام
اور تربُز، ہندوانہ لا کلام

ہے کہانی کی فسانہ فارسی
اور شعلہ کی زبانہ فارسی

نعل در آتش اسی کا نام ہے
جو کہ بے چین اور بے آرام ہے

پست اور ستّو کو کہتے ہیں سویق
ژرف اور گہرے کو کہتے ہیں عمیق

تار، تانا، پود بانا، یاد رکھ
آزمودن، آزمانا یاد رکھ

یوسہ، مچھّی، چاہنا ہے خواستن
کم ہے اندک اور گھٹنا کاستن

خوش رہو، ہنسنے کو خندیدن کہو
گر ڈرو، ڈرنے کو ترسیدن کہو

ہے ہراسیدن بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟
اور جنگیدن ہے لڑنا، کیوں لڑو؟

ہے گزرنے کی گزشتن فارسی
اور پھرنے کی ہے گشتن فارسی

وہ سرودن ہے جسے گانا کہیں
ہے وہ آوردن جسے لانا کہیں

زیستن کو جانِ من جینا کہو
اور نوشیدن کو تم پینا کہو

دوڑنے کی فارسی ہے تاختن
کھیلنے کی فارسی ہے باختن

دوختن سینا، دریدن پھاڑنا
کاشتن بونا ہے، رُفتن جھاڑنا

کاشتن بونا ہے اور کشتن بھی ہے
کاتنے کی فارسی رِشتن بھی ہے

ہے ٹپکنے کی چکیدن فارسی
اور سننے کی شنیدن فارسی

کودنا جستن، بریدن کاٹنا
اور لیسیدن کی ہندی چاٹنا

سوختن جلنا، چمکنا تافتن
ڈھونڈنا جستن ہے، پانا یافتن

دیکھنا دیدن، رمیدن بھاگنا
جان لو، بیدار بودن، جاگنا

آمدن آنا، بنانا ساختن
ڈالنے کی فارسی انداختن

باندھنا بستن، کشادن کھولنا
داشتن رکھنا ہے، سُختن تولنا

تولنے کو اور جو سنجیدن کہو
پھر خفا ہونے کو رنجیدن کہو

فارسی سونے کی خفتن جانیے
منہ سے کچھ کہنے کو گفتن جانیے

کھینچنے کی ہے کشیدن فارسی
اور اُگنے کی دمیدن فارسی

اونگھنا پوچھو، غنودن جان لو
مانجھنا چاہو، زدودن جان لو

ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام
ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام

کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو
ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو

غزل

صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا

وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے بھیڑ
آج عالم اور ہے بازار کا

لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا؟
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا

گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا

واہ بے! لڑکے، پڑھی اچھّی غزل
شوق، ابھی سے ہے تجھے، اشعار کا

لو سنو کل کا سبق، آ جاؤ تم
پوزی افسار اور دمچی پاردم

چھلنی کو غربال پرویزن کہو
چھید کو تم رخنہ اور روزن کہو

چہ کے معنی کیا، چگویم کیا کہوں
من شَوَم خاموش، میں چُپ ہو رہوں

باز خواہم رفت، میں پھر جاؤں گا
نان خواہم خورد، روٹی کھاؤں گا

فارسی کیوں کی چرا ہے یاد رکھ
اور گھنٹالا درا ہے یاد رکھ

دشت، صحرا اور جنگل ایک ہے
پھر سہ شنبہ اور منگل ایک ہے

جس کو ناداں کہیے وہ انجان ہے
فارسی بینگن کی بادنجان ہے

جس کو کہتے ہیں جمائی فازہ ہے
جو ہے انگڑائی، وہی خمیازہ ہے

بارہ کہتے ہیں کڑے کو، ہم سے پوچھ
پاڑ ہے تالار، اک عالم سے پوچھ

جس طرح گہنے کی زیور فارسی
اسی طرح ہنسلی کی پرگر فارسی

بھِڑ کی بھائی، فارسی زنبور ہے
دسپنا اُنبر ہے اور انبور ہے

فارسی آئینہ، ہندی آرسی
اور ہے کنگھے کی شانہ فارسی

ہینگ انگوزہ ہے اور ارزیر رانگ
ساز باجا اور ہے آواز بانگ

زوجہ جورو، یزنہ بہنوئی کو جان
خشم غصے اور بدخوئی کو جان

لوہے کو کہتے ہیں آہن اور حدید
جو نئی ہے چیز اسے کہیے جدید

ہے نوا آواز، ساماں اور اُول
نرخ، قیمت اور بہا، یہ سب ہیں مول

سیر لہسن، تُرب مولی، ترہ ساگ
کھا بخور، برخیز اُٹھ، بگریز بھاگ

روئی کی پونی کا ہے پاغُند نام
دُوک تکلے کو کہیں گے، لا کلام

گیتی اور گیہاں ہے دنیا یاد رکھ
اور ہے ندّاف، دھُنیا یاد رکھ

کوہ کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ
فارسی گلخن ہے اور ہندی ہے بھاڑ

تکیہ بالش اور بچھونا بسترا
اصل بستر ہے سمجھ لو تم ذرا

بسترا بولیں سپاہی اور فقیر
ورنہ بستر کہتے ہیں برنا و پیر

پیر بوڑھا اور برنا ہے جواں
جان کو البتہ کہتے ہیں رواں

اینٹ کے گارے کا نام آژند ہے
ہے نصیحت بھی وہی جو پند ہے

پند کو اندرز بھی کہتے ہیں، ہاں
ارض ہے، پر، مرز بھی کہتے ہیں ہاں

کیا ہے ارض اور مرز تم سمجھے؟ زمیں
عنق گردن اور پیشانی جبیں

آس چکّی، آسیا مشہور ہے
اور فَوفل چھالیا مشہور ہے

بانسلی نے اور جلاجل جانجھ ہے
پھر ستَروَن اور عقیمہ بانجھ ہے

کُحل سرمہ اور سلائی مِیل ہے
جس کو جھولی کہیے، وہ زنبیل ہے

پایا قادر نامے نے آج اختتام
اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام!

غزل

شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل، نہیں

علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں

کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کھِل کھِل نہیں

کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق؟
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

  1. ؂۱مثنوی قادر نامہ، غالبؔ کی زندگی میں پہلی بار ۱۲۷۲ھ (۱۸۵۶ء) میں مطبع سلطانی دہلی سے، اور دوسری بار ۲۲ محرم ۱۲۸۰ھ بمطابق ۹ جولائی ۱۸۶۳ء کو محبس پریس دہلی سے چھپی۔