عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں
سلطنت دست بہ دَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیٔ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں
۱ مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں
- ۱از نسخۂ رضا۔