کُلّیاتِ غالبؔ
دیوانِ غالبؔ
غزلیات
ردیف ن
ردیف ن
خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے، تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اُس گُل کی، کہ گلشن میں نہیں
آنسو کہوں کہ، آہ، سوارِ ہوا کہوں
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے، گل زار چمن
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں
ہے ترحم آفریں، آرائشِ بیداد، یاں
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہیں، کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
تنِ بہ بندِ ہوس در نہ دادہ رکھتے ہیں
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں