رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے ۱ کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم ۲
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
۳ پوچھے ہے کیا معاشِ جگر تُفتگانِ عشق
جوں شمع آپ اپنی وہ خوراک ہو گئے
۴ اس رنگ سے اٹھائی کل اُس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے
- ۱نسخۂ رضا میں ”اتنے“۔ شاید کتابت کی غلطی ہے۔
- ۲ایک آدھ نسخے میں ”ہم“ بھی چھپا ہے۔
- ۳نسخۂ رضا سے مزید۔ نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں۔
- ۴نسخۂ مہرؔ میں یہ مصرع یوں درج ہے: ؏ اس رنگ سے کل اُس نے اٹھائی اسدؔ کی نعش۔ مقابلے سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی، زیرِ نظر، قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہٰذا اسے سہوِ کاتب سمجھنا چاہیے۔ ایک آدھ نسخے میں ”نعش“ کی جگہ ”لاش“ بھی چھپا ہے۔