کُلّیاتِ غالبؔ

کہوں جو حال تو کہتے ہو ”مدعا کہیے“
تمھیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟

نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ”ہم ستم گر ہیں“
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو ”بجا“ کہیے

وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

نہیں ذریعۂ راحت جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کُشا کہیے

جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے

کہیں حقیقتِ جانکاہیٔ مرض لکھیے
کہیں مصیبتِ ناسازیٔ دوا کہیے

کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے
کبھی ؂۱ حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے

رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے!
روانیٔ روش و مستیٔ ادا کہیے

نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے!
طرواتِ چمن و خوبیٔ ہوا کہیے

سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے

  1. ؂۱نسخۂ نظامی میں یہاں ”کبھی“ کی جگہ ”کہیں“ درج ہے جو مُبرہن طور پر سہوِ کتابت ہے۔ دیگر قدیم و جدید نسخوں میں یہ دونوں شعر صحیح یا غلط، دونوں ہی صورتوں میں ملتے ہیں۔ صحیح صورت سے مراد وہ صورت ہے جو متن میں درج کی گئی۔ دوسری صورت ، ”کہیں“ کے ساتھ، غلط ہے۔ —حامد علی خاں