پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
۱ قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وہ ہی ۲ صد رنگ نالہ فرسائی
وہ ہی صد گونہ اشک باری ہے
دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بے قراری ہے
جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روزِ بازارِ ۳ جاں سپاری ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازارِ فوج داری ہے
ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے