کُلّیاتِ غالبؔ

متفرقات

نیازِ عشقِ خرمن سوز، اسبابِ ہوس بہتر
جو ہو جاوے نثارِ برق مشتِ خار و خس بہتر

یاد آیا جو وہ کہنا، کہ نہیں، واہ غلط
کی تصور نے بہ صحرائے ہوس راہ غلط

شمشیر صافِ یار، جو زہراب دادہ ہو
وہ خط سبز ہے کہ بہ رخسارِ سادہ ہو

دیکھتا ہوں اسے، تھی جس کی تمنا مجھ کو
آج بیداری میں ہے خوابِ زلیخا مجھ کو

ہنستے ہیں، دیکھ دیکھ کے، سب، ناتواں مجھے
یہ رنگِ زرد، ہے چمنِ زعفراں مجھے

بتو! توبہ کرو، تم کیا ہو؟ جب اِدبار آتا ہے
تو یوسف سا حسیں بِکنے سرِ بازار آتا ہے

زخمِ دل تم نے دُکھایا ہے کہ جی جانے ہے
ایسے ہنستے کو رلایا ہے کہ جی جانے ہے

طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللّٰہ خان قیامت ہے

ملے دو مرشدوں کو قدرتِ حق سے ہیں دو طالب
نظام الدینؔ کو خسروؔ، سراج الدینؔ کو غالبؔ

ان دل فریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے؟
روٹھا جو بے گناہ، تو بے عذر من گیا

خوشی جینے کی کیا، مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا

مسجد کے زیرِ سایہ اِک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خدا ہے

؂۱ دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے
عزیزو، اب اللّٰہ ہی اللّٰہ ہے

  1. ؂۱خط بنام مولانا احمد حسین میناؔ مرزا پوری، مورخہ ۱۳ جولائی ۱۸۶۷ء۔ —نسخۂ رضا