کُلّیاتِ غالبؔ

چرخ تک دھوم ہے

چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا

رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لیے جب سر پہ اُٹھایا سہرا

؂۱ جسے کہتے ہیں خوشی، ا س نے بلائیں لے کر
کبھی چوما، کبھی آنکھوں سے لگایا سہرا

صاف آتی ہیں نظر آبِ گہر کی لہریں
جنبشِ بادِ سحر نے جو ہلایا سہرا

  1. ؂۱آخری دو اشعار نسخۂ رضا سے شامل کیے گئے ہیں۔ —جویریہ مسعود