کُلّیاتِ غالبؔ

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

کارخانے سے جنوں کے بھی، میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا

ساغرِ جلوۂ سرشار ہے، ہر ذرۂ خاک
شوقِ دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا

اے ؂۱ نو آموزِ فنا، ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

؂۲ شورِ رسوائیٔ دل دیکھ کہ یک نالہ شوق
لاکھ پردے میں چھپا، پر وہی عریاں نکلا

کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں، لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا

کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں، یا رب
نقشِ ہر ذرہ، سویدائے بیاباں نکلا

؂۳ شوخیٔ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا

؂۴ میں بھی معذورِ جنوں ہوں، اسدؔ، اے خانہ خراب
پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا

  1. ؂۱بعض نسخوں میں ”اے“ کی جگہ ”ہے“ اور بعض میں اِس کی جگہ ”تھی“ بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بعض دوسرے نسخوں میں ”اے“ ہی چھپا ہے۔ —حامد علی خاں
  2. ؂۲یہ اور اگلے دو اشعار نسخۂ رضا سے شامل کیے گئے ہیں۔ —جویریہ مسعود
  3. ؂۳نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر۔ —اعجاز عبید
  4. ؂۴نسخۂ رضا سے مزید۔ —جویریہ مسعود