کُلّیاتِ غالبؔ

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر، کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل ؂۱ نہیں رہا

بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہاے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا

؂۲ جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا

؂۳ ہوں قطرہ زن بہ مرحلۂ یاس روز و شب
جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا

اے آہ! میری خاطرِ وابستہ کے سوا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا

؂۴ ہر چند ہوں میں طوطیٔ شیریں سخن، ولے
آئینہ، آہ،! میرے مقابل نہیں رہا

؂۵ بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

  1. ؂۱نسخۂ رضا میں ”دستِ قاتل“۔ —جویریہ مسعود
  2. ؂۲یہ تین اشعار نسخۂ بھوپال میں ہیں، اس شعر میں نسخۂ عرشی میں لفظ ”فرصت گزار“ ہے۔ —اعجاز عبید
  3. ؂۳نسخۂ مبارک علی اور نسخۂ حمیدیہ میں ہے: ؏ ہوں قطرہ زن بوادیٔ حسرت شبانہ روز —اعجاز عبید
  4. ؂۴نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ —جویریہ مسعود
  5. ؂۵نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ؏ اندازِ نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسدؔ —جویریہ مسعود