پئے نذرِ کرم تحفہ ہے ”شرمِ نا رسائی“ کا
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا
۱ نہ ہو ”حُسنِ تماشا دوست“ رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا
جہاں مٹ جائے سعیٔ دید خضر آبادِ آسایش
بہ جیبِ ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا
بہ عجز آبادِ وہمِ مدّعا تسلیمِ شوخی ہے
تغافل یوں ۲ نہ کر مغرور تمکیں آزمائی کا
زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا
نہ مارا جان کر بے جرم، غافل! ۳ تیری گردن پر
رہا مانند خونِ بے گُنہ، حق آشنائی کا
تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا
وہی اک بات، ہے جو یاں نفَس، واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
دہانِ ہر ”بتِ پیغارہ جُو،“ زنجیرِ رسوائی
عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا
نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ، مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا
۱یہ شعر نسخۂ بھوپال بخظِ غالبؔ میں ایک علیٰحدہ غزل کا مطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ ہے:؎
تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کادرمیان میں تین مزید اشعار اور آخر میں مطلع بھی ہے۔
- ۲اصل نسخے میں ”یوں“ غالباً چھوٹ گیا ہے۔
مزید: نسخۂ حمیدیہ میں ”تغافل کو نہ کر“ بجائے ”تغافل یوں نہ کر“۔ - ۳نسخۂ حمیدیہ، نظامی، حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ ”قاتل“ ہے۔
مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ حمیدیہ، نیز دیگر تمام پیشِ نظر قدیم نسخوں میں یہاں لفظ ”غافل“ ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ معنوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ ”قاتل“ ملتا ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔