کُلّیاتِ غالبؔ
دیوانِ غالبؔ
غزلیات
ردیف ت
ردیف ت
جاتا ہوں جدھر سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
جاتا ہوں جدھر سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت