کُلّیاتِ غالبؔ

ہوئی ہے بس کہ صرفِ مشقِ تمکینِ بہار آتش
بہ اندازِ حنا ہے رونقِ دستِ چنار آتش

شرر ہے رنگ بعد اظہارِ تابِ جلوہ تمکیں
کرے ہے سنگ پر، خرشید، آبِ روئے کار آتش

گدازِ موم ہے افسونِ ربط پیکر آرائی
نکالے کب، نہالِ شمع، بے تخم شرار آتش

؂۱ نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگا دے ؂۲ خانۂ آئینہ میں رُوئے نگار آتش

فروغِ حُسن سے ہوتی ؂۳ ہے حلِّ مُشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پاسے، نکالے گرنہ خار آتش

خیالِ دود تھا، سر جوشِ سودائے غلط فہمی
اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار، آتش

ہوائے پر فشانی، برقِ خرمن ہائے خاطر ہے
بہ بالِ شعلۂ بے تاب ہے، پروانہ زار، آتش

نہیں برق و شرر، جز وحشت و ضبطِ تپیدن ہا
بلا گردانِ بے پروا، خرامی ہائے یار آتش

دھوئیں سے آگ کے، اک ابرِ دریا بار ہو پیدا
اسدؔ، حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش

  1. ؂۱متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کیے گئے ہیں۔ —جویریہ مسعود
  2. ؂۲بیشتر نسخوں میں ”لگا دے“ کی جگہ ”لگاوے“ چھپا ہے۔ —حامد علی خاں
  3. ؂۳ممکن ہے غالبؔ نے یہاں ”ہوتا ہے“ کہا ہو اور ”ہوتی ہے“ سہوِ مرتبین ہو۔ —حامد علی خاں