کُلّیاتِ غالبؔ

؂۱

آپ نے مَسَّنيَ الضُّر کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے ؂۲ حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی

رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر ؂۳
ذہن میں خوبیٔ تسلیم و رضا ہے تو سہی

ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی

؂۴ دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنّائے دوا ہے تو سہی

غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی

نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی

کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ
شہرۂ تیزیٔ شمشیرِ قضا ہے تو سہی

  1. ؂۱یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ابوالکلام کے حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ —جویریہ مسعود
  2. ؂۲نسخۂ رضا میں ”یا“ بجائے ”اے“۔—جویریہ مسعود
  3. ؂۳نسخۂ رضا میں ”کیوں کر“ بجائے ”کیوں سر“۔ —جویریہ مسعود
  4. ؂۴یہ مصرع نسخۂ رضا میں یوں درج ہے: ؏ دوست گر کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری —جویریہ مسعود