کُلّیاتِ غالبؔ

شفق بدعویٔ عاشق گواہِ رنگیں ہے
کہ ماہ دزدِ حنائے کفِ نگاریں ہے

؂۱ کرے ہے بادہ، ترے لب سے، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے

کبھی تو اِس سرِ ؂۲ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے

بجا ہے، گر نہ سُنے، نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

عیاں ہے پائے حنائی بہ رنگِ پرتوِ خورشید
رِکاب روزنِ دیوارِ خانۂ زیں ہے

جبینِ صبح، امیدِ فسانہ گویاں پر
درازیٔ رگِ خوابِ بتاں خطِ چیں ہے

ہوا نشانِ سوادِ دیارِ حسن عیاں
کہ خط غبارِ زمیں خیزِ زلفِ مشکیں ہے

؂۳ نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کار و بارِ اسدؔ
جنوں معاملہ، بے دل، فقیرِ مسکیں ہے

اسدؔ ہے نزع میں، چل بے وفا! برائے خُدا!
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے

  1. ؂۱متداول دیوان میں یہ غزل ان تین شعروں اور اسدؔ ہے نزع… والے مقطع مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کیے گئے ہیں۔ —جویریہ مسعود
  2. ؂۲نسخۂ حامد علی خاں میں ”سرِ شوریدہ“ کی جگہ ”دلِ شوریدہ“ درج ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ: —جویریہ مسعود
    نسخۂ عرشی میں غالباً بالیں کی رعایت سے ”سرِ شوریدہ“ درج کیا گیا ہے، مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، ”دلِ شوریدہ“ ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں ”دلِ شوریدہ“ درج کر کے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالبؔ نے ”سرِ شوریدہ“ ہی لکھا ہو گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ”معنیٔ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔“ —حامد علی خاں
  3. ؂۳نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے —جویریہ مسعود