کُلّیاتِ غالبؔ

گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے

نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم
لے لیا مجھ سے مری ہمّتِ عالی نے مجھے

کثرت آرائیٔ وحدت ہے پرستاریٔ وہم
کر دیا کافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے

ہوسِ گل کے تصوّر میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

؂۱ زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا
نشہ بخشا غضب اس ساغرِ خالی نے مجھے

بس کہ تھی فصلِ خزانِ چمنستانِ سخن
رنگِ شہرت نہ دیا تازہ خیالی نے مجھے

جلوۂ خور سے، فنا ہوتی ہے شبنم، غالبؔ
کھو دیا سطوتِ اسمائے جلالی نے مجھے

  1. ؂۱اس شعر تا مقطع نسخۂ رضا سے۔ —جویریہ مسعود