ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دورِ قدح وجہ پریشانیٔ صہبا
یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے
رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
بیدادِ وفا دیکھ، کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
۱ کیا پوچھے ہے بر خود غلطی ہائے عزیزاں؟
خواری کو بھی اک عار ہے، عالی نسبوں سے
گو تم کو رضا جوئیٔ اغیار ہے، لیکن
جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے؟
مت پوچھ، اسدؔ، غصۂ کم فرصتیٔ زیست
دو دن بھی جو کاٹے، تو قیامت تعبوں سے
- ۱یہاں سے آخر تک نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔