کُلّیاتِ غالبؔ

نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرخِ ستم گار! کروں یا نہ کروں

مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جائے کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں

لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام
کہیے کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں