کُلّیاتِ غالبؔ

نہاں کیفیتِ مے میں ہے سامانِ حجاب اس کا
بُنا ہے پنبۂ سینا سے ساقی نے نقاب اس کا

اگر اس شعلہ رو کو دوں پیامِ مجلس افروزی
زبانِ شمعِ خلوت خانہ دیتی ہے جواب اس کا

عیاں کیفیت مے خانہ ہے جوئے گلستاں میں
کہ مے عکس شفق ہے اور ساغر ہے حباب اس کا

اٹھائے ہیں جو میں افتادگی میں متصل صدمے
کروں گا اشک ہائے وا چکیدہ سے حساب اس کا

اسدؔ کے واسطے رنگے بہ روئے کار ہو پیدا
غبار، آواہ و سر گشتہ ہے یا بو تراب اس کا