کُلّیاتِ غالبؔ

دیا یاروں نے بے ہوشی میں درماں کا فریب آخر
ہُوا سکتے سے میں آئینۂ دستِ طبیب آخر

رگِ گل، جادۂ تارِ نگہ سے حد موافق ہے
ملیں گے منزلِ الفت میں ہم اور عندلیب آخر

غرورِ ضبط، وقتِ نزع ٹوٹا بے قراری سے
نیاز پر افشانی ہو گیا صبر و شکیب آخر

ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
تکلف بر طرف! مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر

اسدؔ کی طرح میری بھی بغیر از صبح رخساراں
ہوئی شامِ جوانی، اے دلِ حسرت نصیب، آخر