کُلّیاتِ غالبؔ

از آنجا کہ حسرت کشِ یار ہیں ہم
رقیبِ تمنّائے دیدار ہیں ہم

؂۱ رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم

نفس ہو نہ معزولِ شعلہ درودن
کہ ضبطِ تپش سے شرر کار ہیں ہم

تغافل کمیں گاہِ وحشت شناسی
نگہبانِ دل ہائے اغیار ہیں ہم

تماشائے گلشن تماشائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

نہ ذوقِ گریباں، نہ پروائے داماں
نگاہ آشنائے گل و خار ہیں ہم

اسدؔ شکوہ کفرِ دعا نا سپاسی
ہجومِ تمنّا سے لاچار ہیں ہم

  1. ؂۱نسخۂ حمیدیہ میں بھی یہ شعر بعینہٖ درج ہے جیسا کہ اس نسخۂ نظامی میں، مگر نسخۂ رضا میں یہ شعر دونوں مصرعوں کے دو لفظوں کے اختلاف کے ساتھ یوں درج ہے: ؎

    رمیدن گلِ باغِ واماندگی ہے
    عبث محمل آرائے رفتار ہیں ہم

    —جویریہ مسعود