کُلّیاتِ غالبؔ

اے نوا سازِ تماشا، سر بہ کف جلتا ہوں میں
یک طرف جلتا ہے دل اور یک طرف جلتا ہوں میں

شمع ہوں، لیکن بپا در رفتہ خارِ جستجو
مدعا گم کردہ، ہر سو، ہر طرف جلتا ہوں میں

ہے، مساسِ دستِ افسوس، آتش انگیزِ تپش
بے تکلف آپ پیدا کر کے تف جلتا ہوں میں

ہے تماشا گاہِ سوزِ تازہ، ہر یک عضوِ تن
جوں چراغانِ دوالی، صف بہ صف جلتا ہوں میں

شمع ہوں، تو بزم میں جا پاؤں غالبؔ کی طرح
بے محل، اے مجلس آرائے نجف! جلتا ہوں میں