وہ نہا کر آبِ گل سے، سایہ گل کے تلے
بال کس گرمی سے سِکھلاتا تھا، سنبل کے تلے
کثرتِ جوشِ سویدا سے نہیں تل کی جگہ
خال کب مشاطہ دے سکتی ہے کاکل کے تلے
بس کہ خوباں باغ کو دیتے ہیں وقتِ مے شکست
بال اگ جاتا ہے شیشے کا رگِ گل کے تلے
ہے پر افشانِ تپیدن ہا بہ تکلیفِ ہوس
ورنہ صد گل زار ہے یک بالِ بلبل کے تلے
پے بہ مقصد بردنی ہے خضرِ مے سے، اے اسدؔ
جادہ منزل ہے خطِ ساغر مل کے تلے