کُلّیاتِ غالبؔ

مقامِ شکر ہے، اے ساکنانِ خطہ خاک ؂۱

مقامِ شکر ہے، اے ساکنانِ خطہ خاک
رہا ہے زور سے، ابر ستارہ بار، برس

کہاں ہے ساقی مہوش، کہاں ہے ابرِ مُطیر
”بیار“ لا مئے گلنار گوں، ”ببار“ برس

خدا نے تجھ کو عطا کی ہے گوہر افشانی
درِ حضور پر، اے ابر، بار بار برس

ہر ایک قطرے کے ساتھ آئے جو ملک، وہ کہے
”امیر کلب علی خاں جئیں ہزار برس“

فقط ہزار برس پر کچھ انحصار نہیں
کئی ہزار برس، بلکہ بے شمار برس

جنابِ قبلہ حاجات، اس بلا کش نے
بڑے عذاب سے کاٹے ہیں، پانچ چار برس

شفا ہو آپ کو، غالبؔ کو بندِ غم سے نجات
خدا کرے کہ یہ ایسا ہو سازگار برس

  1. ؂۱یہ قطعہ، خط بنام نواب کلب علی خاں، مورخہ ۱۱ اگست ۱۸۶۵ء کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ —نسخۂ رضا