کُلّیاتِ غالبؔ
دیوانِ غالبؔ
غزلیات
ردیف و
ردیف و
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
آئی اگر بلا، تو جگہ سے ٹلے نہیں
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو