کُلّیاتِ غالبؔ

فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تون٘بے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے ؂۱

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ ”ہے“، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ، غم نہ ہووے ؂۲
اُردی جو نہ ہو، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد!
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

؂۳ انجامِ شمارِ غم نہ پوچھو
یہ مصرفِ تا بکَے نہیں ہے

جس دل میں کہ ”تا بکَے“ سما جائے
واں عزّتِ تختِ کَے نہیں ہے

ہستی ہے، نہ کچھ عَدم ہے، غالبؔ!
آخر تُو کیا ہے، اَے ”نہیں ہے“

  1. ؂۱نسخۂ حامد علی خاں میں یہ مصرع یوں ہے: ؏ پَر تُجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ: —جویریہ مسعود
    نسخۂ نظامی، نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع ”تو“ کے بغیر چھپا ہے۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے میں بھی جو شاید مطبعِ احمدی دہلی میں چھپا تھا ”تو“ نہیں ہے۔ باقی تمام قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، ”تو“ موجود ہے۔ طباطبائی نے اِس مصرع کو ”تو“ کے ساتھ شائع کر کے ”سی“ پر عَروضی اعتراض کیا ہے مگر بھر خود ہی اعتراض کو رد کر دیا ہے۔ دو قدیم نسخوں میں ”سی“ کی جگہ ”سے“ بھی چھپا ہے۔ —حامد علی خاں
  2. ؂۲نسخۂ عرشی: ”رہوے“ —حامد علی خاں
  3. ؂۳یہ دونوں اشعار نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں۔ یہاں نسخۂ رضا سے شامل کیے گئے ہیں۔ —جویریہ مسعود