کُلّیاتِ غالبؔ

خطِ منظوم بنام علائی

؂۱ خوشی تو ہے آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں

سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں

سِوا اناج کے جو ہے مطلوبِ ؂۲ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں

وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں

فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار
کہو اس کو کیا کھا کے ہم حِظ اُٹھائیں؟

  1. ؂۱نسخۂ مہرؔ میں مصرع یوں ہے: ؏ خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے —جویریہ مسعود
  2. ؂۲نسخۂ رضا میں ”مقلوب“۔ —جویریہ مسعود