گزارشِ غالبؔ
اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہان دارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ اَورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادتِ اِکلیل
تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل
تجھ سے عِالم پہ کُھلا رابطۂ قُربِ کلیم
تُجھ سے دنیا میں بِچھا مائدۂ بَذلِ خلیل
بہ سُخَن اَوجِ دہِ مرتبۂ معنی و لفظ
بہ کرم داغِ نِہِ ناصیۂ قُلزُم و نِیل
تا، ترے وقت میں ہو عَیش و طرب کی توفیر ۱
تا، ترے عہد میں ہو رنج و اَلَم کی تقلیل
ماہ نے چھوڑ دیا ثَور سے جانا باہر
زُہرہ نے ترک کیا حُوت سے کرنا تحویل
تیری دانش، مری اصلاحِ مَفاسدؔ کی رَہین
تیری بخشش، مِرے اِنجاحِ مقاصد کی کفیل
تیرا اقبالِ تَرَحُّم مِرے جینے کی نَوِید
تیرا اندازِ تَغافُل مِرے مرنے کی دلیل
بختِ ناساز نے چاہا کہ نہ دے مُجھ کو اماں
چرخِ کج باز نے چاہا کہ کرے مُجھ کو ذلیل
پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بُنِ ناخُنِ تدبیر میں کیل
تَپِشِ دل نہیں بے رابطۂ خَوفِ عظیم
کششِ دم نہیں بے ضابطۂ جَرِّ ثقیل
دُرِ معنی سے مِرا صفحہ، لقا کی ڈاڑھی
غَمِ گیتی سے مِرا سینہ اَمَر ۲ کی زنبیل
فکر میری گُہر اندوزِ اشاراتِ کثیر
کِلک میری رقَم آموزِ عباراتِ قلیل
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدُّق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
نیک ہوتی مِری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مِری خاطر تو نہ کرتا تعجیل
قبلۂ کون و مکاں، خستہ نوازی میں یہ دیر؟
کعبۂ امن و اماں، عُقدہ کُشائی میں یہ ڈھیل؟
- ۱نسخۂ نظامی، سہوِ کتابت: توقیر۔
- ۲غالبؔ نے اِسے جان بوجھ کر الف سے لکھا ہے حالانکہ زنبیل سے مراد عَمر عیّار (جسے عَمرو عیّار بھی کہتے ہیں) کی زنبیل ہی ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لیے الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی طرف نہ جائے۔
مزید: غالبؔ نے یہاں ”اَمَر“ ہی لکھا تھا، یعنی متحرک ”م“ کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں ”عَمرو“ ہی لکھنا مناسب ہے انھیں سوچنا چاہیے کہ ”عَمرو“ میں ”م“ ساکن ہے۔