کُلّیاتِ غالبؔ

پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں
میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں

آہ کا، کس نے، اثر دیکھا ہے؟
ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں

حسنِ افسردہ دلی ہا رنگیں
شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

تیرے بیمار پہ ہیں فریادی
وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں

قید میں بھی ہے، اسیری، آزاد
چشمِ زنجیر کو وا باندھتے ہیں

شیخ جی کعبے کا جانا معلوم
آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں

کس کا دل زلف سے بھاگا؟ کہ اسدؔ
دستِ شانہ بہ قفا باندھتے ہیں