کُلّیاتِ غالبؔ

نگاہِ یار نے جب عرضِ تکلیفِ شرارت کی
دیا ابرو کو چھیڑ اور اُس نے فتنے کو اشارت کی

روانی موجِ مے کی، گر خطِ جام آشنا ہووے
لکھے کیفیت اُس سطرِ تبسم کی عبارت کی

شہِ گل نے کیا جب بندوبستِ گلشن آرائی
عصائے سبز دے نرگس کو دی خدمت نظارت کی

نہیں ریزش عرق کی، اب اسے ذوبانِ اعضا ہے
تبِ خجلت نے یہ نبضِ رگِ گل میں حرارت کی

ز بس نکلا غبارِ دل بہ وقتِ گریہ آنکھوں سے
اسدؔ، کھائے ہوئے سر مے نے آنکھوں میں بصارت کی