کُلّیاتِ غالبؔ

اگر وہ آفتِ نظارہ جلوہ گستر ہو
ہلال، ناخنکِ دیدہ ہائے اختر ہو

بہ یادِ قامت، اگر ہو بلند آتشِ غم
ہر ایک داغِ جگر، آفتابِ محشر ہو

ستم کشی کا، کیا دل نے، حوصلہ پیدا
اب اُس سے ربط کروں جو بہت ستم گر ہو

عجب نہیں، پئے تحریرِ حالِ گریۂ چشم
بہ روئے آب جو، ہر موج، نقشِ مسطر ہو

امیدوار ہوں، تاثیرِ تلخ کامی سے
کہ قندِ بوسۂ شیریں لباں مکرر ہو

صدف کی، ہے ترے نقشِ قدم میں، کیفیّت
سرشکِ چشمِ اسدؔ، کیوں نہ اس میں گوہر ہو