کُلّیاتِ غالبؔ

منقار سے رکھتا ہوں بہم چاکِ قفس کو
تا گل ز جگر زخم میں ہے راہِ نفس کو

بے باک ہوں از بس کہ بہ بازارِ محبت
سمجھا ہوں زرہ جوہرِ شمشیرِ عسس کو

رہنے دو گرفتار بہ زندانِ خموشی
چھیڑو نہ مجھ افسردہ دزدیدہ نفس کو

پیدا ہوئے ہیں ہم الم آبادِ جہاں میں
فرسودنِ پائے طلب و دستِ ہوس کو

نالاں ہو، اسدؔ، تو بھی سرِ راہ گزر پر
کہتے ہیں کہ تاثیر ہے فریادِ جرس کو