فہرستِ عنوانات
- سخن ہائے گفتنی
- دیباچہ
- اتحادِ عمل
- اِس ویب کتاب کے بارے میں
دیوانِ غالبؔ
غزلیات
ردیف الف
- نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
- جنوں گرم انتظار و نالہ بے تابی کمند آیا
- عالم جہاں بہ عرضِ بساطِ وجود تھا
- کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
- عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
- دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
- شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
- دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
- شمار سبحہ، ”مرغوبِ بتِ مشکل“ پسند آیا
- دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
- ستائش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
- نہ ہو گا ”یک بیاباں ماندگی“ سے ذوق کم میرا
- ز بس خوں گشتۂ رشکِ وفا تھا وہم بسمل کا
- محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا
- بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
- شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
- نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
- کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟
- بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
- شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
- دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
- یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
- ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
- درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
- نہ بھولا اضطرابِ دم شماری، انتظار اپنا
- پئے نذرِ کرم تحفہ ہے ”شرمِ نا رسائی“ کا
- گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
- درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
- گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٔ جا کا
- قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
- جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
- میں اور بزمِ مے سے یوں، تشنہ کام آؤں
- گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
- نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
- یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
- وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
- پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
- ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
- لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا
- تُو دوست کسی کا بھی، ستم گر! نہ ہوا تھا
- شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
- ضعفِ جنوں کو، وقتِ تپش، در بھی دور تھا
- بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاں در خلوتِ شب ہا
- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
- خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا
- ذکر اس پریوش کا اور پھر بیاں اپنا
- طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
- خلوتِ آبلۂ پا میں ہے، جولاں میرا
- جَور سے باز آئے پر، باز آئیں کیا
- بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا
- عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
- رات، دل گرمِ خیالِ جلوۂ جانانہ تھا
- سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا
- نہ ہو حسنِ تماشا دوست، رسوا بے وفائی کا
- بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
- بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
- وردِ اسمِ حق سے، دیدارِ صنم حاصل ہوا
ردیف ب
ردیف ت
ردیف ج
ردیف چ
ردیف د
ردیف ر
ردیف ز
ردیف س
ردیف ش
ردیف ع
ردیف ف
ردیف ک
ردیف گ
ردیف ل
ردیف م
ردیف ن
- خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں
- وہ فراق اور وہ وصال کہاں
- کی وفا ہم سے، تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں
- آبرو کیا خاک اُس گُل کی، کہ گلشن میں نہیں
- آنسو کہوں کہ، آہ، سوارِ ہوا کہوں
- مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
- ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن
- ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
- مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
- مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
- صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے، گل زار چمن
- عشق تاثیر سے نومید نہیں
- جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
- ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
- کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
- حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
- ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
- نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
- دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
- ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
- سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں
- ہے ترحم آفریں، آرائشِ بیداد، یاں
- یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
- نہیں، کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
- تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
- تنِ بہ بندِ ہوس در نہ دادہ رکھتے ہیں
- دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
- سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
- دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
- فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
- مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
- دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
- غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
- ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
ردیف و
- حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
- آئی اگر بلا، تو جگہ سے ٹلے نہیں
- وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
- قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
- واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
- واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
- تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
- گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
- کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
- رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ردیف ہ
ردیف ی
- صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
- مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
- بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
- ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
- تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
- گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
- غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
- حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
- کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
- درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
- سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
- گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
- نظر بہ نقصِ گدایاں، کمالِ بے ادبی ہے
- بس کہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
- پِینَس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
- یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے
- نشۂ مے، بے چمن، دودِ چراغِ کشتہ ہے
- چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
- عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
- ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
- اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
- رفتارِ عمر قطعِ رہِ اضطراب ہے
- دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
- گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
- کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
- فرصت، آئینۂ صد رنگِ خود آرائی ہے
- سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
- دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
- کوئی دن گر زندگانی اور ہے
- کوئی امّید بر نہیں آتی
- دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
- کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
- پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
- جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
- نِکوہِش ہے سزا فریادیٔ بیدادِ دِلبر کی
- بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
- جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
- ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
- آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
- میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
- ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
- ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تُو مجھے
- جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
- حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
- نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
- عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
- شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
- ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
- غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
- پھر اس انداز سے بہار آئی
- تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
- کب وہ سنتا ہے کہانی میری
- تشنۂ خونِ تماشا جو وہ پانی مانگے
- گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے
- جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
- یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
- عاشق، نقابِ جلوۂ جانانہ چاہیے
- چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
- ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
- نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
- چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
- وہ آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے
- تپِش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے
- خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
- فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
- بہارِ تعزیت آبادِ عشق، ماتم ہے
- ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
- شفق بدعویٔ عاشق گواہِ رنگیں ہے
- دل سراپا وقفِ سودائے نگاہِ تیز ہے
- دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
- دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
- یاد ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ ”یا رب“، مجھے
- حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
- کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آجائے ہے، مُجھ سے
- ز بس کہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
- لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
- بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
- کہوں جو حال تو کہتے ہو ”مدعا کہیے“
- رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
- شوخیٔ مضرابِ جولاں، آبیارِ نغمہ ہے
- عرضِ نازِ شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے
- حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
- جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
- ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
- بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
- باغ تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
- روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
- ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
- کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
- مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
- غم و عشرت، قدم بوسِ دلِ تسلیم آئیں ہے
- دیکھتا ہوں وحشتِ شوقِ خروش آمادہ سے
- ہوں میں بھی تماشائیٔ نیرنگِ تمنا
- کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی
- ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
- خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
- جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
- آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
- شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
- منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
- غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
- مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
- نویدِ امن ہے بیدادِ دوست، جاں کے لیے
- آپ نے مَسَّنيَ الضُّر کہا ہے تو سہی
- لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
- میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
قصائد
مثنوی
- خمسہ
- مرثیہ
- سلام
سہرے
قطعات
- گزارشِ غالبؔ
- گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفاداری
- ہائے ہائے
- در مدحِ ڈلی
- بیسنی روٹی
- چہار شنبہ آخرِ ماہِ صفر
- روزہ
- طائرِ دل
- خطِ منظوم بنام علائی
- قطعہ تاریخ
- قطعہ تاریخ
- قطعہ تاریخ
- بلا عنوان
- سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
- گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
- ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
- اے جہاں آفریں خدائے کریم
- گوڑ گانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
رباعیات
- شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
- دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
- دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
- آتش بازی ہے جیسے شغلِ اطفال
- بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
- مشکل ہے ز بس کلام میرا اے دل
- ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
- کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
- سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں؟
- دل تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
- ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لیے
- بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
- حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
- اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا
- ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
- اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
- رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
- اے روشنیٔ دیدہ شہاب الدیں خاں
- اے منشیٔ خیرہ سر! سخن ساز نہ ہو
- جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
- متفرقات
ضمیمۂ اوّل: از ”نوائے سروش (نسخۂ مہر)“
- آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
- بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
- خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
- کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
- جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
- نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
- وضعِ نیرنگیٔ آفاق نے مارا ہم کو
- حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو
- نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
- بتائیں ہم تمھارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
- نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی
- وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
- یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
- نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
- خود جان دے کے روح کو آزاد کیجیے
- ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
- درد ہو دل میں تو دوا کیجے
- سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
- کس کی برقِ شوخیٔ رفتار کا دلدادہ ہے
- اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
ضمیمۂ دوم: انتخاب از ”نسخۂ حمیدیہ“
ضمیمۂ سوم: انتخاب از ”دیوانِ غالبؔ کامل، تاریخی ترتیب سے“
غزلیات
ردیف الف
- تنگ ظرفوں کا رتبہ جہد سے برتر نہیں ہوتا
- نہاں کیفیتِ مے میں ہے سامانِ حجاب اس کا
- خود آرا وحشتِ چشمِ پری سے شب وہ بد خو تھا
- شبِ اختر قدحِ عیش نے محمل باندھا
- کیا کس شوخ نے ناز از سرِ تمکیں نشستن کا
- فرو پیچیدنی ہے فرش بزمِ عیش گستر کا
- وہ فلک رتبہ کہ بر توسنِ چالاک چڑھا
- بہ مہرِ نامہ جو بوسہ گلِ پیام رہا
- عیادت سے ز بس ٹوٹا ہے دل، یارانِ غمگیں کا
- زِ بس ہے ناز پروازِ غرورِ نشہ صہبا
- کرے گر حیرتِ نظارہ، طوفاں نکتہ گوئی کا
- وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا
- یادِ روزے کہ نفس سلسلۂ یا رب تھا
- بس کہ جوشِ گریہ سے زیرو زبر ویرانہ تھا
- ہے تنگ زِ واماندہ شدن حوصلۂ پا
- جگر سے ٹوٹی ہوئی ہو گئی سناں پیدا
- گرفتاری میں فرمانِ خطِ تقدیر ہے پیدا
- سحر گہ باغ میں وہ حیرتِ گل زار ہو پیدا
- شب کہ دل زخمی عرضِ دو جہاں تیر آیا
- دویدن کے کمیں، جوں ریشہ زیرِ زمیں پایا
- نزاکت، ہے فسونِ دعویِٰ طاقت شکستن ہا
- بسانِ جوہرِ آئینہ از ویرانیٔ دل ہا
- خط جو رخ پر، جانشینِ ہالۂ مہ ہو گیا
- بس کہ عاجز نا رسائی سے کبوتر ہو گیا
- دلِ بے تاب کہ سینے میں دمِ چند رہا
- یک گامِ بے خودی سے لوٹیں بہارِ صحرا
- تنگی رفیقِ رہ تھی، عدم یا وجود تھا
ردیف ب
ردیف ث
ردیف ج
ردیف چ
ردیف د
ردیف ر
ردیف ز
ردیف س
ردیف ش
ردیف غ
ردیف ف
ردیف ک
ردیف ل
ردیف م
ردیف ن
- اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
- مجلس شعلہ عذاراں میں جو آ جاتا ہوں
- جس جا کہ پائے سیلِ بلا درمیاں نہیں
- مرگِ شیریں ہو گئی تھی کوہ کن کی فکر میں
- اے نوا سازِ تماشا، سر بہ کف جلتا ہوں میں
- فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں
- بہ غفلت عطرِ گل، ہم آگہی مخمور، مَلتے ہیں
- خوں در جگر نہفتہ، بہ زردی رسیدہ ہوں
- سودائے عشق سے دمِ سردِ کشیدہ ہوں
- ہوئی ہیں آب، شرمِ کوششِ بے جا سے، تدبیریں
- بے دماغی، حیلہ جوئے ترکِ تنہائی نہیں
- ظاہرا سر پنجۂ افتادگاں گیرا نہیں
- ضمانِ جادہ رویاندن ہے خطِ جامِ مے نوشاں
- نہیں ہے بے سبب قطرے کو، شکلِ گوہر، افسردن
- دیکھیے مت چشمِ کم سے سوئے ضبط افسردگاں
- سازشِ صلحِ بتاں میں ہے نہاں جنگیدن
- طاؤس نمط، داغ کے گر رنگ نکالوں
- کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں؟
- بہ قدرِ لفظ و معنی، فکرت احرامِ گریباں ہیں
- پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں
ردیف و
ردیف ہ
ردیف ی
- کرے ہے رہرواں سے خضرِ راہِ عشق جلادی
- یہ سر نوشت میں میری ہے، اشک افشانی
- بے خود زِ بس خاطرِ بے تاب ہو گئی
- دریوزۂ ساماں ہا، اے بے سر و سامانی
- دلا، عبث ہے تمنائے خاطر افروزی
- خبر نگہ کو، نگہ چشم کو عدو جانے
- اگر گُل حسن و اُلفت کی بہم جو شیدنی جانے
- دیکھتا ہوں وحشتِ شوقِ خروش آمادہ سے
- اے خیالِ وصل، نادر ہے مے آشامی تری
- چشمِ گریاں، بسملِ شوقِ بہارِ دید ہے
- نظر پرستی و بے کاری و خود آرائی
- نگہ اُس چشم کی، افزوں کرے ہے نا توانائی
- روتا ہوں بس کہ در ہوسِ آرمیدگی
- نہ چھوڑ و محفلِ عشرت میں جا، اے میکشاں، خالی
- وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟
- پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی
ردیف ے
- بے تابیٔ یادِ دوست، ہم رنگِ تسلی ہے
- صبح سے معلوم، آثارِ ظہورِ شام، ہے
- مژہ، پہلوئے چشم، اے جلوۂ ادراک باقی ہے
- صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
- دیکھ وہ برقِ تبسم، بس کہ، دل بے تاب ہے
- ضبط سے، جوں مردمک، اسپند اقامت گیر ہے
- اک گرم آہ کی، تو ہزاروں کے گھر جلے
- ہر رنگِ سوز، پردۂ یک ساز ہے مجھے
- آنکھوں میں انتظار سے جاں پر شتاب ہے
- جنوں رسوائیٔ وارستگی؟ زنجیر بہتر ہے
- تر جبیں رکھتی ہے، شرمِ قطرہ سامانی مجھے
- کاوشِ دزدِ حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے
- دیکھ تری خوئے گرم، دل بہ تپش رام ہے
- بس کہ سودائے خیالِ زلف، وحشت ناک ہے
- کوشش، ہمہ بے تابِ تردد شکنی ہے
- کاشانۂ ہستی کہ بر انداختنی ہے
- حکمِ بے تابی نہیں اور آرمیدن منع ہے
- چار سوئے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے
- گدائے طاقتِ تقریر ہے، زباں، تجھ سے
- شکلِ طاؤس، گرفتار بنایا ہے مجھے
- قتلِ عشاق نہ غفلت کشِ تدبیر آوے
- خوابِ جمعیّتِ مخمل ہے پریشان مجھ سے
- گریہ، سرشاری شوق بہ بیاباں زدہ ہے
- خوابِ غفلت بہ کمیں گاہِ نظر پنہاں ہے
- تا چند نازِ مسجد و بت خانہ کھینچیے
- دامانِ دل بہ وہمِ تماشا نہ کھینچیے
- منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے
- وائے خفتۂ الفت، اگر بے تاب ہو جاوے
- دلِ بیمارِ از خود رفتہ، تصویرِ نہالی ہے
- زلفِ سیہ، افعی نظرِ بد قلمی ہے
- اس قامتِ رعنا کی جہاں جلوہ گری ہے
- تا چند، نفس، غفلتِ ہستی سے بر آوے
- محوِ آرامیدگی، سامانِ بے تابی کرے
- اے خوشا! وقتے کہ ساقی یک خمستاں وا کرے
- بہ نقصِ ظاہری، رنگِ کمالِ طبع، پنہاں ہے
- تمام اجزائے عالم صیدِ دامِ چشمِ گریاں ہے
- تغافل مشربی سے، نا تمامی بس کہ پیدا ہے
- اثر سوزِ محبت کا، قیامت بے محابا ہے
- بہرِ پروردن سراسر لطف گستر، سایہ، ہے
- وہ نہا کر آبِ گل سے، سایہ گل کے تلے
- جوہرِ آئینہ ساں، مژگاں بدل آسودہ ہے
- عذارِ یار، نظر بندِ چشمِ گریاں ہے
- بہ فکرِ حیرتِ رم، آئینہ پرداز زانو ہے
- ہوا جب حسن کم، خط بر عذارِ سادہ آتا ہے
- نگاہِ یار نے جب عرضِ تکلیفِ شرارت کی
- خدایا، دل کہاں تک دن بہ صد رنج و تعب کاٹے
- تماشائے جہاں مفتِ نظر ہے
- بس کہ زیرِ خاک با آبِ طراوت راہ ہے
- بس کہ چشم از انتظارِ خوش خطاں بے نور ہے
- سوختگاں کی خاک میں ریزشِ نقشِ داغ ہے
- سمجھاؤ اسے، یہ وضع چھوڑے
- کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
- ربطِ تمیزِ اعیاں، دُردِ مئے صدا ہے
- گر یاس سر نہ کھینچے، تنگی عجب فضا ہے
- ذوقِ خود داری، خرابِ وحشتِ تسخیر ہے
قصائد
قطعات
رباعیات
- ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا
- سامانِ ہزار جستجو، یعنی، دل!
- اے کاش بتاں کا خنجرِ سینہ شگاف
- اے کثرتِ فہمِ بے شمار اندیشہ
- بے گریہ کمالِ تر جبینی ہے مجھے
- گر جوہرِ امتیاز ہوتا ہم میں
- گلخن، شرر اہتمام بستر ہے آج
- دل، سوزِ جنوں سے جلوہ منظر ہے آج
- اصحاب کو جو نا سزا کہتے ہیں
- یارانِ رسول، یعنی اصحابِ کبار
- یارانِ نبی میں تھی لڑائی کس میں؟
- یارانِ نبی سے رکھ تولا، باللّٰہ!
- متفرقات
- غالبؔ کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر
- ضمیمۂ چہارم: ”قادر نامہ“
- کتابیات